Feeds:
Posts
Comments

Archive for March, 2023


DON’T ARGUE WITH DONKEYS

The donkey said to the tiger:
– “The grass is blue”.

The tiger replied:
– “No, the grass is green.”

The discussion heated up, and the two decided to submit him to arbitration, and for this they went before the lion, the King of the Jungle.

Already before reaching the forest clearing, where the lion was sitting on his throne, the donkey began to shout:
– “His Highness, is it true that the grass is blue?”.

The lion replied:
– “True, the grass is blue.”

The donkey hurried and continued:
– “The tiger disagrees with me and contradicts and annoys me, please punish him.”

The king then declared:
– “The tiger will be punished with 5 years of silence.”

The donkey jumped cheerfully and went on his way, content and repeating:
– “The Grass Is Blue”…

The tiger accepted his punishment, but before he asked the lion:
– “Your Majesty, why have you punished me?, after all, the grass is green.”

The lion replied:
– “In fact, the grass is green.”

The tiger asked:
– “So why are you punishing me?”.

The lion replied:
– “That has nothing to do with the question of whether the grass is blue or green. The punishment is because it is not possible for a brave and intelligent creature like you to waste time arguing with a donkey, and on top of that come and bother me with that question.”

The worst waste of time is arguing with the fool and fanatic who does not care about truth or reality, but only the victory of his beliefs and illusions. Never waste time on arguments that don’t make sense…
There are people who, no matter how much evidence and evidence we present to them, are not in the capacity to understand, and others are blinded by ego, hatred and resentment, and all they want is to be right even if they are not.

When ignorance screams, intelligence is silent. Your peace and quiet are worth more.

Author Unknown

Read Full Post »


*Time*
In 1998, Kodak had 1,70,000 employees.
They sold 85% of the world’s photo paper.
In a few years, digital photography drove them out of the market.
Kodak went bankrupt.
All its employees went on the road.
There was no shortage of quality in all of them.
Still out of the market ….. !!
Reason……???
They have not changed over time …. !!
The world will change completely in the next 10 years.
About 70% to 90% of today’s industries will be closed.
* Welcome to the Fourth Industrial Revolution… *
Uber is just a software.
Despite not owning a single car, it is the largest taxi company in the world.
Airbnb
(Air BNB)
Is the world’s largest hotel company ..
Although they do not have a hotel of their own.
There are many examples like Paytm, Ola Tax, Ovi Room.
There is no work left for young lawyers in America now.
Because IBM Watson
IBM Watson
The software provides instant legal advice.
90% of American lawyers will lose their jobs in next 10 years …
Those who will save 10% ..
They will be super experts.
Watson software can diagnose cancer 4 times more accurately than humans.
By 2030, computers will be more intelligent than humans.
In the next 10 years, 90% of cars will disappear from the roads of the world.
Who will survive ..
They will be either electric cars or hybrids.
Roads will be empty.
Gasoline consumption will be reduced by 90%.
All Arab countries will go bankrupt.
You will find a car with software like Uber.
In a few moments the driverless car will be parked at your door.
If you share it with someone, that ride will be cheaper for you than a motorcycle.
99% of accidents will be stopped due to driverless cars.
No job like driver will be left on earth ..
When 90% of cars will disappear from cities and roads.
So problems like traffic and parking will disappear automatically.
Because one car would be equal to 200 cars.
5 or 10 years ago there was no place without PCO.
Then when the mobile phone came in everyone’s pocket ..
So the PCO started to shut down.
All those PCOs started selling phone recharges.
Now even recharge online has started ..
There are mobile phones in every third shop in the market nowadays.
Sales, service, recharge, accessories, repair, maintenance etc etc …
Now everything is being done from ATM.
Now people have started booking railway tickets from their phones.
Now money transactions are also changing.
Currency notes were first exchanged for plastic money.
It is now digital.
The world is changing so fast ..
Keep your eyes and ears open or you will be left behind.
Be prepared to change over time.
So …!
A person should also change the nature of his business over time.
* Upgrade business over time .. *
Move forward with time and achieve success.
To have a good time …

Read Full Post »


مجرمانہ خاموشی… کیا 5 منٹ ہیں آپکے پاس

وہ شخص مفتی صاحب کے کمرے میں داخل ہوا سلام کیا اور مفتی صاحب کے سامنے بیٹھہ گیا، مفتی صاحب میرے تین بچے ہیں بیوی ھے اور میں ہوں، میں کرائے کے گھر میں رہتا ہوں، حالات بہت خراب ہیں بہت تنگدستی ھے منہگائی نے کمر توڑ دی ھے آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں کسی طور بھی گھر کا خرچہ پورا نہیں ھوتا رہنمائی فرمائیے کیا کروں؟۔
مفتی صاحب نے روایتی باتیں دھرائیں،
عیاشی ختم کرو اخراجات پر کنٹرول کرو تقویٰ اختیار کرو اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لئیے جدوجہد کرو معاملات بہتر ھوجائیں گے انشاءاللہ۔
مفتی صاحب یہاں جائز خواہشات کا جنازہ نکلا ہوا ہے آپ عیاشی کی بات کر رہے ہیں، اخراجات صرف اتنے ہیں کے روح سے سانس کا رشتہ قائم رہے، میرے گھر میں بھوک ناچ رہی ھے آپ کہہ رہے ہیں کہ میں تقویٰ اختیار کروں، تقویٰ اختیار کرنے کے لئیے پلے کچھہ ھونا ضروری ھے یعنی اگر میرے پاس دنیا بھر کی نعمتیں ہیں تو میں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے انتہائی سادہ زندگی بسر کروں مگر میرے پاس تو تقویٰ اختیار کرنے کے لئیے بھی کچھہ نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہہ کا قول ہے کہ مفلسی کفر تک لے جاتی ھے بھوکے آدمی کا کوئی مذہب ہی نہیں ھوتا اور آپ مجھے تقوئے کا درس دے رہے ہیں.
صبح منہ اندھیرئے گھر سے نکلتا ہوں اور رات اندھیرئے میں ہی گھر لوٹتا ہوں، سارے دن کی مشقت اس قابل نہیں چھوڑتی کہ کوئی اور کام کر سکوں اور نہ ہی وقت بچتا ھے کسی دوسرے کام کے لئیے، مالک سے تنخواہ بڑھانے کے لئیے کہتا ہوں تو وہ کہتا ھے زیادہ نخرئے نہ دکھاو تم سے بھی کم تنخواہ میں لوگ کام کرنے کے لئیے تیار ہیں۔

(حدیث کا مفہوم ہے کہ) کوئی تمہیں دعوت دے تو تم ضرور جاو، مگر میں تو اس سعادت سے بھی محروم رہتا ہوں کہ کہیں شادی بیاہ میں جاوں تو عزت کا بھرم رکھنے کے لئیے کچھہ نہ کچھہ تو دینا پڑتا ہے جبکہ میرے پاس دینے کے لئیے صرف دعائیں ہوتی ہیں جو کے آج کے دور میں عزت بچانے کے لئیے ناکافی ہیں۔

مشقت اور مالی پریشانیوں کے باعث ہر وقت ڈپریشن میں رہتا ہوں جس کی وجہ سے شوگر کا مرض ھوگیا ھے جسکا علاج کم از کم دو ہزار روپے مہینہ نگل جاتا ھے۔
حدیث ھے کہ علم حاصل کرو چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، مگر میں تو بچوں کو گلی کے نکڑ والے اسکول میں پڑھاتا ھوں اسکی بھی فیس ماہوار پانچ سو روپے فی بچہ بنتی ھے دو بچوں کے ہزار روپے ماہوار، نصاب اور یونیفارم کا خرچہ الگ ہے، گونمنٹ کے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی نیت سے بھیجنا بلکل ایسا ہی ہے جیسے بیل سے دودھہ نکالنا اور وہاں سے بچہ اور تو بہت کچھہ حاصل کرسکتا ھے مگر تعلیم نہیں۔
عید کے عید اپنے بیوی کے اور بچوں کے کپڑے بناتا ہوں کہ ہر ماہ یا ہر دو تین ماہ بعد کپڑے خریدنا میری جیسی آمدنی والے کی بس کی بات نہیں ھے، موبائل فون میرے پاس نہیں ھے کہ میری دسترس میں ہی نہیں ھے ویسے بھی مجھے اسکی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کیوں کے میرے جیسے حالات رکھنے والوں کی خیریت دریافت کرنا کوئی گوارہ نہیں کرتا نہ ہی کسی کو مجھہ سے کوئی کام پڑتا ھے۔
مفتی صاحب اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کے میرے ان اخراجات میں اصراف کہاں ھے؟ عیاشی کہاں ھے؟ کہاں کا تقویٰ کیسی قناعت؟ ان سارے اخراجات میں ناجائز کیا ھے؟ مفتی صاحب، میری تنخواہ بیس ہزار ھے اور یہ جو میں نے آپکو انتہائی جائز اخراجات گنوائے ہیں سالانہ اور ماہوار ملا کر اوسطاَ تیس ہزار روپے مہینہ بنتا ھے یعنی ہر ماہ دس ہزار روپے کا فرق، بتائیے یہ فرق کیسے مٹایا جائے؟، آپ نائب رسول ہیں امت کی زمہ داری ہے آپ پر، میں آپ سے سوال کرتا ہوں کے ان حالات میں کیا حکم ھے اسلام کا میرے لئیے؟ اور ان حالات میں بہ حیثیت مذہبی رہنما کیا زمہ داری بنتی ھے آپکی؟۔
میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اسلامی حدود کب اور کس معاشرے پر نافظ ھوتی ہیں؟

آپ جیسے سارے مذہبی اکابرین پاکستان کے مختلف شہروں میں ہر سال لاکھوں لوگوں کا اجتماع کرتے ہیں جس میں آپ بعد از مرگ کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو بہت تفصیل سے بتاتے ہیں قبر کے عذاب کے بارے میں بتانے ہیں جہنم سے ڈراتے ہیں، مگر یہ جو اٹھارہ کروڑ میں سے سولہہ کروڑ لوگ زندگی میں جہنم جھیل رہے ہیں انہیں آپ انکے جائز حقوق کے بارے میں آگہی کیوں نہیں دیتے؟ اسلام نے شہری کے لئیے کیا حقوق وضع کیئے ہیں یہ آپ لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے؟ لوگ آپ کے منہ سے نکلی بات کو اہمیت دیتے ہیں اسے اپنے ایمان کا حصہ بناتے ہیں،

کیا آپکی زمہ داری نہیں بنتی کے آپ لوگ حکومت وقت سے مطالبہ کریں کہ اسلام کے مطابق کم از کم تنخواہ دس گرام سونے کے برابر ھونی چاہیے، چلیں دس گرام نہیں تو پانچ گرام سونے کے مساوی تنخواہ کا مطالبہ کردیں۔ کیا آپکی زمہ داری نہیں بنتی کہ آپ فتویٰ دیں کے پاکستان جیسے معاشرے میں حدود نافظ العمل نہیں ہیں
میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں مفتی صاحب یہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے سولہہ کروڑ لوگوں کا مسلہ ہے اس پر اپکی یہ مجرمانہ خاموشی آپ کی ذات پر اور آپ لوگوں کے منصب پر سوالیہ نشان ھے، میں وہ مفلس ہوں جسکے لئیے ……..

یہ سب کہنے کے بعد وہ شخص خاموش ھوگیا اور مفتی صاحب کی طرف دیکھنے لگا، مفتی صاحب بولے تمہاری ہر بات ٹھیک ھے لیکن اب تم مجھہ سے کیا چاہتے ھو؟
میں آپ سے فتویٰ چاہتا ہوں کہ ایسے معاشرے میں حدود نہیں لگ سکتیں
یا تو گورنمنٹ پہلے عام آدمی کو اسلام کے مطابق تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ کرے
پھر اگر وہ روزی کمانے کا کوئی ناجائز زریعہ استعمال کرتا ھے تو اسے سزا کا مرتکب ٹھرائے

۔ اگر گورنمنٹ ایسا نہیں کرتی تو عام آدمی اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے آزاد ہے کے وہ جو بھی زریعہ چاہے استعمال کرے کیا آپ یہ فتوی دے سکتے ہیں

مفتی صاحب بولے میں ایسا نہیں کرسکتا اسطرح تو معاشرے میں انتشار پھیل جائے گا سارا نظام دھرم بھرم ھوجائے گا انارکی پھیل جائے گی۔
وہ شخص بولا مفتی صاحب سولہہ کروڑ لوگوں کی زندگی تو اس وقت بھی انتشار کا شکار ہے، انکی زندگی میں انارکی تو اس وقت بھی پھیلی ہوئی ہے، آپ کے فتوے سے تو صرف دس پرسنٹ لوگوں کی زندگی میں انتشار پھیلے گا اور یہ وہ ہی دس پرسنٹ لوگ ہیں جو نوے پرسنٹ کا حق مار رہے ہیں تو اگر آپ کے فتوے سے دس پرسنٹ کی زندگی میں انارکی پھیلتی ہے تو اسکا فائدہ تو نوے پرسنٹ لوگوں کو ملے گا یہ تو گھاٹے کا سودا نہیں ہے، اور ویسے بھی آپکا کام نفع نقصان دیکھنا نہیں، آپکا کام حق اور صحیح کی حمایت کرنا ہے کیا آپکو نہیں لگتا کے آپ کے اور آپ جیسے تمام علماء اور مفتی حضرات کی خاموشی کا فائدہ لٹیروں کو مل رہا ہے؟۔
عام آدمی تو مسلسل تنزلی کا شکار ہورہا ہے وہ نہ دین کا رہا نہ دنیا کا، کبھی غور کیا آپ نے کہ ایک عام پاکستانی کی زندگی کا مقصد ہی صرف دو وقت کی روٹی کا حصول بن چکا ہے، زندگی جیسی قیمتی چیز کو لوگ موت کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، سوچیں اس ماں کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہوگی جو اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو موت کی نیند سلانے پر مجبور ہورہی ہے، عزت دار گھر کی لڑکیاں عصمت فروشی پر مجبور ہوگئی ہیں، جن ننھے ننھے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہییں ان ہاتھوں میں گاڑی کی ونڈ اسکرین صاف کرنے والا وائپر ہے،
آپکا سینہ اس وقت غم سے کیوں نہیں پھٹتا جب سخت سرد رات میں دس سال کا معصوم بچہ ابلے ہوئے انڈے بیچ رہا ہوتا ہے؟
یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں موبائل فون کی سم فری اور روٹی سات روپے کی ہے، کیا یہ انتشار نہیں ہے؟ کیا یہ انارکی نہیں ہے؟ کیا یہ سب ننگے حقائق آپکا دل دھلانے کے لئیے کافی نہیں ہیں؟ کیا بہ روز حشر آپ اللہ تعالی سے بھی یہ ہی کہیں گے کہ میں نے حق بات اسلئیے نہیں کہی کہ دس پرسنٹ لٹیروں کا نظام زندگی دھرم بھرم ہوجاتا انکی عیاشیاں ختم ہوجاتیں، دے سکیں گے آپ اللہ کے حضور یہ دلیل؟
لوگوں کے جائز حقوق کے لئیے فتویٰ کیوں نہیں دیا جاسکتا ؟۔
مفتی صاحب بت بنے اسکی باتیں سنتے رہے اس اثناء میں وہ شخص جانے کے لئیے کھڑا ہوگیا اور بولا میرے ہر سوال کا جواب آپکی مجرمانہ خاموشی میں پنہاں ہے۔
بس اب آپ سے اور آپکی علماء برادری سے آخری بات یہ ہی کہوں گا کہ اب بھی اگر آپ لوگوں نے سولہہ کروڑ عوام کے اس مسلے پر مسجد کے منبر سے آواز حق بلند نہ کی تو ثابت ہوجائے گا کے آپ اور آپکی پوری علماء برادری بھی سولہہ کروڑ عوام کی تباہی میں برابر کے شریک ہیں آپ بھی ان ہی دس پرسنٹ لٹیروں میں شامل ہیں، آپکو اور آپکی علماء برادری کو بھی سولہہ کروڑ عوام کے اس اہم اور بنیادی مسلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے پر برابر کا حصہ مل رہا ہے۔
یاد رکھئیے گا میری بات جس دن بھی عوام کے اندر پکا ہوا یہ لاوا پھٹا اس روز ان دس پرسنٹ مراعت یافتہ لوگوں کے ساتھہ ساتھہ عوام آپکی بھی پگڑیاں نہیں، سر اچھالے گی۔ اس سے پہلے کہ مفتی صاحب مزید کچھہ کہتے وہ شخص کمرے سے جاچکا…

Read Full Post »